جب قرآن پہ پابندی لگی
اس نے کہا دروازہ تو میں کھول دونگا لیکن اگر آپکو کوی نقصان پہنچا تو میں زمہ دار نہیں ہوں گا ، میں نے کہا دیکھیں جناب میں پاکستان میں بھی مسلمان تھا اور روس کے ماسکو میں بھی مسلمان ہی ہوں پاکستان کے کراچی میں بھی نماز ادا کرتا تھا اور روس کے ماسکو میں بھی نماز ادا کروں گا چاہے کچھ بھی ہوجاے ۔ اس نے مسجد کا دروازہ کھولا تو اندر مسجد کا ماحول بہت خراب تھا میں نے جلدی جلدی صفائی کی اور مسجد کی حالت اچھی کرنے کی کوشیش کرنے لگا کام سے فارغ ہونے کے بعد میں نے بلند آواز سے آزان دی ۔۔۔۔۔ آزان کی آواز سن کر بوڑھے بچے مرد عورت جوان سب مسجد کے دروازے پہ جمع ہوے کہ یہ کون ہے جس نے موت کو آواز دی ۔۔۔۔ لیکن مسجد کے اندر کوی بھی نہیں آیا،۔۔۔۔ خیر میں نے جمعہ تو ادا نہیں کیا کیونکہ اکیلا ہی تھا بس ظہر کی نماز ادا کی اور مسجد سے باہر آگیا جب میں جانے لگا تو لوگ مجھے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے کہ میں نماز ادا کرکہ باہر نہیں نکلا بلکہ دنیا کا کویی نیا کام متعارف کرواکر مسجد سے نکلا،
ایک بچہ میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ ہمارے گھر چاۓ پینے آے ۔ اسکے لہجے میں حلوص ایسا تھا کہ میں انکار نہ کرسکا میں انکے ساتھ گیا تو گھر میں طرح طرح کے پکوان بن چکے تھے اور میرے آنے پہ سب بہت خوش دکھائی دے رہے تھے میں نے کھانا کھایا چاے پی تو ایک بچہ ساتھ بیٹھا ہوا تھا میں نے اس سے پوچھا آپکو قرآن پاک پڑھنا آتا ہے ۔ ؟
بچے نے کہا جی بلکل قرآن پاک تو ہم سب کو آتا ہے ، میں نے جیب سے قرآن کا چھوٹا نسحہ نکالا اور کہا یہ پڑھ کر سناو مجھے ۔۔۔
بچے نے قرآن کو دیکھا اور مجھے دیکھا پھر قرآن کو دیکھا اور ماں باپ کو دیکھ کر دروازے کو دیکھا پھر مجھے دیکھا ۔ میں نے سوچا اس کو قرآن پڑھنا نھی آتا لیکن اس نے کہا کیوں کہ اسکو قرآن پڑھنا آتا ہے ۔ میں نے کہا بیٹا یہ دیکھو قرآن کی اس آیت پہ انگلی
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ
رکھی تو وہ فر فر بولنے لگا بنا قرآن کو دیکھے ہی ۔۔۔۔ مجھے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا کہ یہ تو قرآن کو دیکھے بنا ہی پڑھنے لگا میں نے اسکے والدین سے کہا " حضرات یہ کیا معاملہ ہے ؟
انہوں نے مسکرا کر کہا " دراصل ہمارے پاس قرآن پاک موجود نہیں کسی کے گھر سے قرآن پاک کے آیت کا ایک ٹکڑا بھی مل جاے تو اس تمام حاندان کو پھانسی کی سزا دے دی جاتی ھے اس وجہ سے ہم لوگ قرآن پاک نہیں رکھتے گھروں میں "
" تو پھر اس بچے کو قرآن کس نے سکھایا کیونکہ قرآن پاک تو کسی کے پاس ہے ہی نہیں " میں نے مزید حیران ہوکر کہا
" ہمارے پاس قرآن کے کئ حافظ ہے کوئی درزی ہے کوی دکاندار کوئ سبزی فروش کوئی کسان ہم انکے پاس اپنے بچے بھیج دیتے ہے محنت مزدوری کے بہانے ۔۔۔۔ وہ انکو الحمد اللہ سے لیکر والناس تک زبانی قرآن پڑھاتے ہیں ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ وہ حافظ قرآن بن جاتے ہے کسی کے پاس قرآن کا نسحہ ہے نہیں اسلیئے ہماری نیی نسل کو ناظرہ نہیں آتا بلکہ اس وقت ہمارے گلیوں میں آپکو جتنے بھی بچے دکھائی دے رہے ہیں یہ سب کے سب حافظ قرآن ہے ۔ یہی وجہ ہے جب آپ نے اس بچے کے سامنے قرآن رکھا تو اسکو پڑھنا نہیں آیا ناظرہ کرکہ لیکن جب آپ نے آیت سنائی تو وہ فر فر بولنے لگا اگر آپ نہ روکتے تو یہ سارا قرآن ہی پڑھ کر سنا دیتا ۔
وہ نوجوان کہتا ہے کہ میں نے قرآن کا ایک نہیں کئ ہزار معجزے اس دن دیکھے ، جس معاشرے میں قرآن پہ پابندی لگا دی گئ تھی رکھنے پہ ، اس معاشرے کے ہر ہر بچے بوڑھے مرد عورت کے سینوں میں قرآن حفظ ہوکر رہ گیا تھا میں جب باہر نکلا تو کئ سو بچے دیکھے اور ان سے قرآن سننے کی فرمائش کی تو سب نے قرآن سنا دی ، میں نے کہا
" لوگوں ۔۔۔۔۔! تم نے قرآن رکھنے پہ پابندی لگا دی لیکن جو سینے میں قرآن مجید محفوظ ہے اس پہ پابندی نہ لگا سکے ۔تب مجھے احساس ہوا کہ اللہ پاک کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہے
إِنَّا نَحنُ نَزَّلْنَا الذِّكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ::: بے شک یہ ذِکر (قران) ہم نے نازل فرمایا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں
جب لیٹرین نہیں ہوتی تھی ۔۔؟؟
نوٹ : نابالغ اور کچے ذہن ہرگز نہ پڑھیں۔۔
تنہا رہنے والی غیر شادی شدہ لڑکیوں کی زندگی
کس کرب اور تکلیف میں گزرتی ہے- -!!!
.
یونیسیف کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد لڑکیاں جن کی عمریں بیس سے پینتیس سال تک کی ہیں شادیوں کے انتظار میں بیٹھی ہیں۔ ان میں سے دس لاکھ کے قریب لڑکیوں کی شادی کی عمر گزر چکی ہے۔ تنہا رہنے والی بیوائیں جن کی عمریں 30 سے 45 سال کی ہیں تقریباً 60 لاکھ تک کی تعداد میں موجود ہیں۔ مطلب یہ کہ یہ وہ بیوائیں ہیں جن کی دوسری شادی ممکن ہے لیکن ہمارے معاشرے میں شادی کے لئے لڑکیوں کے انتخاب کا طریقہء کار کچھ اس قدر غیر انسانی اور غیر مہذب ہو چکا ہے کہ بیوائیں تو کیا تیس سال کی کنواری لڑکی بھی اس زمرے میں نہیں آتی۔ کل بیواؤں کی تعداد تقریباً چار ملین ہے جن کی کفالت کے لئے ملک میں کوئی سرکاری و غیر سرکاری مضبوط و مربوط نظام موجود نہیں۔
رشتوں میں تاخیر کی بڑی وجہ رشتے کے انتخاب کی حد سے ذیادہ بڑھتی مانگیں بھی ہیں اور اور وہ مفاد پرستی و مادہ پرستی بھی جس کے آگے اب شرافت، انسانیت، ادب آداب اور تہذیب جیسے خصائص بے وقعت ہو چکے ہیں۔ اس مسئلے کا سبب معاشی و سماجی ناہمواریاں بھی ہیں اور لڑکیوں کا تعلیم کی طرف بڑھتا رحجان بھی۔ لڑکی کے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ تعلیم میں اس کے ہم پلہ رشتہ دستیاب ہو سکے اور دوسری طرف لڑکے کے گھر والے بھی ذیادہ تعلیم یافتہ لڑکی کے انتخاب میں حیل و حجت سے کام لیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں ذیادہ پڑھ لکھ جانے والی لڑکیاں عموماً بد دماغ اور بد مزاج ہو جاتی ہیں۔
اگر ایک پڑھی لکھی، ملازمت پیشہ خاتون اپنوں کی ستم ظریفیوں کو نہ سہارتے ہوئے اکیلے زندگی بسر کرنے لگے تو پھر تو گویا یہ ہمارا فرض بن چکتا ہے کہ ہم اس کا جینا اجیرن کر ڈالیں۔
ہمارے معاشرے میں ایک تنہا عورت کا کردار ہمیشہ مشکوک ہی سمجھا جاتا ہے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اسے تنہا کرنے والے بھی ہم ہی لوگ ہیں اورہمارے معاشرے کا غلاظتوں بھرا رویہ اور سوچ ہے۔
رشتے بروقت طے نہ پانے کے بعض اسباب تو ایسے مضحکہ خیز بھی ہیں کہ انہیں جان کر ہنسی بھی آتی ہے اور اپنے بیٹے کو راجہ اندر سمجھنے والوں کی گھٹیا سوچ پر ماتم کرنے کو بھی جی چاہتا ہے۔ مثلاً لڑکی والوں کا گھر کرائے پر ہونا، یا ان کی طرف سے لڑکے کے گھر والوں کو خاطر خواہ پروٹوکول نہ دیا جانا، ان کا گھر یا گھر کو جانے والی گلی کا تنگ و تاریک ہونا۔ اکثر تو یہ بھی کہتے پائے جاتے ہیں کہ جس سڑک سے گزر کر لڑکی کے گھر کو جایا جاتا ہے اس سڑک کے کنارے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پائے جاتے ہیں یا شہر بھر کی غلاظتوں سے لتھڑا نالے کا ادھر سے گزر ہے۔ یہ اور ایسی لاتعداد وجوہات ہیں کہ جن کی بناء پر ہی ہمارے ہر پانچویں گھر میں لڑکیاں اور لڑکے شادی کے منتظر ہیں۔ اور اسی انتظار میں ان کی عمر ڈھل رہی ہے۔
تنہا رہنے والی غیر شادی شدہ لڑکیوں یا بیواؤں کی زندگی جس کرب اور تکلیف میں گزرتی ہے اس کا اندازہ بھی کرنا مشکل ہے۔ بیوا ہو جانے پر تو اکثر خواتین کو سسرال والے جائیداد میں حصہ نہ دیتے ہوئے انہیں گھر سے ہی بے دخل کر دیتے ہیں۔ وہ اس بات کی انہیں زرا برابر بھی پروا نہیں ہوتی کہ ایک تنہا عورت اپنے بچوں کے ساتھ کس طور گزر بسر کا بندوبست کر پائے گی۔ یہ ایک نہایت تکلیف دہ پہلو ہے۔ ان کی تکالیف کو بڑھاوا اس وقت ملتا ہے جب یہ معاشرہ انہیں اچھوت کا درجہ دے دیتا ہے۔ ۔
الغرض ایک بیٹی کا ماں باپ ہونا ایسا جرم عظیم بن چکا ہے جس کا مداوا نا ممکن ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب ایک ہی گھرانے کے افراد لڑکی کے لئے لڑکا دیکھنے نکلتے ہیں تو ان کی نفسیات کچھ اور ہوتی ہے اور جب اپنے بیٹے کا رشتہ تلاش کرتے ہیں تو یہ نفسیات یکسر بدل جاتی ہے۔ ہمارا معاشرہ ایک ایسے دوغلے پن کا شکار ہے جس میں شاید ہم سب ہی شامل ہیں۔ بیٹی سے ملازمت کروانا اسے معاشی مسائل سے نکلنے میں مدد کے مصداق سمجھا جاتا ہے۔ اور اکثر گھرانوں میں اسے ملازمت کی اجازت اس کے خواب پورے کرنے کے لئے بھی دی جاتی ہے لیکن جب اپنے بیٹے کے لئے لڑکی ڈھونڈی جاتی ہے تو ملازمت پیشہ لڑکیوں کے چال چلن پر بھروسہ نہ کرتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا جاتا ہے۔ لڑکا اگر رنڈوا بھی ہے، دو چار بچوں کا باپ بھی ہے تو بھی رشتہ کنواری اور کم عمر لڑکی کا ڈھونڈا جاتا ہے۔ یہاں تو ایسی ایسی بھی مثالیں ہیں کہ ستر سال کے آدمی کو اپنا بڑھاپا سنبھالنے یا پھر سنوارنے کے لئے تیس یا پینتیس سال ہی کی دوشیزہ چاہئے۔
کبھی محسوس کریں وہ درد جو بن بیاہی، عمر رسیدہ ہو جانے والی لڑکیوں کے والدین کے کلیجے میں اٹھتا ہو گا۔ شرم آنی چاہئے ایسے رزیل معاشرے کو جس کے بوڑھے اس قدر بے بس اور ناتواں بنا دئے گئے ہیں، جو راتوں میں اپنی آنکھوں کی بجھی بجھی سی لو اور اس کی گیلی کچھاروں کی اوٹ سے اپنی بیٹیوں کے بے تمنا، بے آرزو، بے بس جسموں پر نگاہ ڈالتے اور وقت نزاع کے لگ بھگ حلق سے نکلنے جیسی ہوک اپنے اندر کھینچتے ہیں۔ کیسی حسرت اور بے بسی کا درد پینا اور سہنا پڑتا ہے انہیں جب موت کی بھی تمنا اس ڈر سے نہیں کرتے کہ ان کے بعد ان کے آنگن میں پڑے گوشت پوست کے ان لوتھڑوں کو زمانے بھر کے بھوکے کرگس نوچ کھائیں گے۔ اور وہ ماں باپ جن کے آنگن میں ابھی ایک چھوڑ دو، دو، چار چار بن بیاہی بیٹیاں بیٹھی ہیں۔ وہ کس طور اپنے اس دکھ کو سہار پاتے ہیں۔ اس کا تو ہم اندازہ ہی نہیں کر سکتے۔
اس سے بھی تکلیف کی بات یہ ہے کہ ہم نے بن بیاہی لڑکیوں کا جینا اس قدر مشکل کر رکھا ہے کہ وہ محض زندہ لاشیں ہی رہ جاتی ہیں۔ ایک طرف تو اپنوں کے طعنے ہی ان کی برداشت سے باہر ہوتے ہیں اور دوسری طرف ان پر ترس کھانے والے لوگ انہیں لمحہ لمحہ ان کی محرومی کا احساس دلائے رکھتے ہیں۔ ایسے جیسے وہ خود ہی اپنی تقدیر کے لیکھے کی زمے دار ہیں۔
اور اگر ایک پڑھی لکھی، ملازمت پیشہ خاتون اپنوں کی ستم ظریفیوں کو نہ سہارتے ہوئے اکیلے زندگی بسر کرنے لگے تو پھر تو گویا یہ ہمارا فرض بن چکتا ہے کہ ہم اس کا جینا اجیرن کر ڈالیں۔ اگر یہ کہا جائے تو کوئی بے جا نہ ہو گا کہ ہمارے معاشرے میں ایک تنہا عورت کا کردار ہمیشہ مشکوک ہی سمجھا جاتا ہے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اسے تنہا کرنے والے بھی ہم ہی لوگ ہیں اورہمارے معاشرے کا غلاظتوں بھرا رویہ اور سوچ ہے۔ ہم وقت بے وقت اس کے دروازے پر بنا ضرورت کے دستک دے کر، اس کے گھر کی دیوار سے ٹیک لگا کر گندے گندے فقرات اچھال کر، بیہودہ گانے گا کر، اس کا رستہ روک کر۔ اور اس سے متعلق فرضی بیہودہ کہانیاں جوڑ کر، اسے ہراساں کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے بہت عالم فاضل لوگ خصوصاً علماءحضرات کچھ عرصے سے ایک مہم چلا رہے ہیں کہ” مرد کو دوسری شادی کرنا چاہئے” یہاں تک بھی کہا گیا کہ جو مرد نہ کرے وہ گناہ گار ہو گا۔ یہ غالباً سعودیہ کے امام کے بیان کے بعد کہا جانے لگا۔ لیکن کیا ہمارے ملک کے حضرات دوسری شادی کسی غریب، بیوہ، ادھیڑ عمر، بدصورت یا اپاہج عورت سے کرنا پسند کرتے ہیں؟ نہیں یہاں تو ستر سال کے بوڑھے کو بھی کم عمر دوشیزہ چاہئے۔ پھر آپ دوسری شادی کو کیا نام دیں گے۔ ۔ ؟ شادی یا عیاشی؟۔ ۔
آپ کو تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت پر مبارکباد دی جاتی ھے۔
آپ نے ایک ہزار کا بیلنس قبول کرکے اپنی ممبر شپ کی توثیق کر دی ھے اور آپ کیلئے یہ خبر یقینی طور پر خوشی کا باعث ہوگی کہ آپ کا انتخاب تنظیم کے فدائی وِنگ میں ھو گیا ھے۔
آپ کو ٹریننگ کیلئے جلد ہی آپ کے گھر سے اُٹھا لیا جائے گا۔
تھوڑی دیر بعد ہی ماسٹرجی کو دو ہزار کا بیلنس اس میسج کے ساتھ وصول ہوا کہ
بھائی جان، موبائل چارجر میں لگا ہونے کی وجہ سے کال وصول نہیں کر سکا تھا ،
بہرحال دو ہزار کا بیلنس وصول کریں نیز مجھے معاف کردیں
میری نہ صرف نظر کمزور ھے بلکہ ایک ٹانگ پولیو کی وجہ سے ناکارہ اور ایک ہاتھ پر فالج بھی ھے۔