کہانی ایک آوارہ بیروزگار کی

از
اسکا اصل نام تو اسے خود بھی یاد نہیں تھا جب اس نے عقل وشعور سے بند اپنی آنکھ کھولی تو خود کو سانڈے سانڈے کہتے سنا..تو اس مسئلے کا حل اس نے کارڈ چھپوا کر کیا کیونکہ جس تقریب میں اسے جانا ہوتا تھا .وہ اصل نام بھول جاتا تھا .اس کے لیے کارڈ نکال کر وہ بتا تا تھا کہ اسکا اصل نام کیا ہے .اس کے متعلق ماں باپ میں مشہور تھا کہ وہ ایک اچھا لڑکا ہے کیونکہ پیدائش کے وقت اسکی آنکھیں بند تھیں.لیکن اس کے متعلق محلے داروں میں بہت سی باتیں مشہور تھیں کہ وہ مجذوب ہے اللہ والا ہے مکار ہے عیار ہے ..جو لوگ اسے اللہ والے سمجھتے تھے وہ اس لیے کہ وہ چوبیش گھنٹے نشہ میں دھت ہوتا تھا.محلے دار سمجھتے تھے کہ شاید وہ فنا ٖفی اللہ ہو چکا ہے . تفصیل سے پڑھیے
جو اسے مجذوب سمجھتے تھے وہ اس لیے کہ وہ چوریاں کرتا تھا..جو مکار سمجھتے تھے وہ اس لیے کہ وہ نیم وا آنکھوں سے لڑکیوں کو دیکھتا رہتا تھا.اس نے باپ کا نام میٹرک میں فیل ہو کر روشن کیا .کیونکہ وہ واحد آدمی تھا محلے کا جو میٹرک میں فیل ہوا تھا.تو باپ نے عزم صمیم کر کے اسے پڑھانے کا فیصلہ کیا تو اس نے میڑک میں ہیٹرک کر کے باپ کا سر شرم سے اونچا کر دیا..میٹرک میں فیل ہو کر اس نے ہمت نہ ہاری بلکہ گلی محلے کی حسین لڑکیوں کو پاکیزہ نگاہوں سے دیکھنا شروع کر دیا .اور انہیں ایزی لوڈ کروا کے بولتا تھا کہ اس کی زندگی میں اس کے سوا کوئی اور نہیں ہے .میٹرک میں فیل ہو کر کالج کی دیواروں کا طواف شروع کر دیا شاید وہاں شنوائی ہو مگر گرلز کالج کے سامنے لڑکیوں کے والدین کیسے برداشت کرتے .ایک لڑکی کے والد نے تو اسے کچلنے کی سعی بھی کر ڈالی.لیکن یہ اس کی خوشی قسمتی تھی کہ گٹر کا ہول کھلا ہوا تھا .اس میں گر اپنی عزت کا فالودہ نکلوا کر اپنی جان بچائی .لیکن اس کا ایک فائدہ ہواکہ اس لڑکی اسے بھائی بنا لیا.اسے اس بات سے چڑ تھی کہ کوئی حسین وجمیل لڑکی اسے بھائی بنائے.اس نے کہا کہ ملک کے اندر ایک ہٹے کٹے باڈی بلڈر الطاف بھائی کیا کم ہیں کہ لڑکیاں ہر معصوم پرہیزگار کو بھائی بنانے پر تلی ہوئی ہیں.اس نے فوج کے اندر بھرتی ہونے کی کوشش کی مگر نقارہ خانے میں ڈبے کی کون سنتا .اس نے پریشان ہو کر سوچا کہ کیا جائے حالانکہ سوچتے تو صرف دماغ والے ہیں مگر پھر بھی اس نے باتھ روم کے اندر جاکر سوچا تو کوئی ترکیب نہ بنی تو اس نے روڈ پر آ کر سوچا ..اسے ایک رکشے والا ملا جس کے پیچھے لکھا ہوا تھا''' ہم کچھ نہیں لکھتے"'' ایک اور رکشہ گزرا جس پر ایک حسین اور جمیل لڑکی کی تصویر تھی جس کے پیچھے ایک لڑکا منہ بولی بہن کو چھوڑنے جا رہا تھا اور اس کی نگاہوں اس منہ بولی بہن کی باتوں سے زیادہ اس اشتہار پر مر کوز تھیں.کئی اور دوکاندار بھی بیویوں کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر اس منظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے.کیونکہ سب بےچارے کوئی وزیر تو نہیں تھے انہیں روبرو بیٹھا کر دیکھتے یا دوست محمد کھوسہ کی طرح اسے اپنے گھر بلاتے یاو وزیراعلیٰ تو نہیں تھے کہ انہیں دعوت دیتے نکاح کی.وہ اور بھی بہت کچھ دیکھ لیتے اگر ان کے پاس دستی کا نمبر ہوتا.. تو اس کے خالی ذہن میں ایک خیال چونکا اور دل کےاضطراب سے گھبرا کر اس نے سوچا کہ کیوں نہ یہاں سے اپنی جان چھڑائی جائے اور شاعربن کر عالمی شہرت کمائی جائے.یہ ان کا خیال پایہ تکمیل تک پہنچتا اگر انہیں منشیات کے کیس میں جیل کے اندر نہ بھیج دیا گیا ہوتا.وہاں تو صرف تھانیدار اور سپاہیوں کی شاعری سننی پڑتی ہے.کیا کسی کی مجال کہ وہاں جا کر وہ اپنی شاعری سنائے.تھانیدار کے تخلیق کردہ عروض کو مدنظر رکھ کر تما م سپاہی اپنی غزلیں بے دھڑک سناتے ہیں اور سامعین سے داد وصول کرتے ہیں.اور جیل میں شاعری کا سر چکرا جاتا ہے کہ وہ کس اذیت میں مبتلا ہو گئی ہے
اسے کس نے رہا کروایا اسے خود بھی پتہ نہیں تھا.صرف اتنا اسے پتہ چلا کہ تھانیدار نے دو کلو چرس کا نذرانہ لے کر رات کے اجالے میں رہا کر دیا.اس نے سوچا کہ کیوں نہ سیاست بنوں .سائیکل مارچ کروں یا ایک پارٹی بنا کر ملک وملت کی خدمت کروں اور اپنے لیے ایک مناسب سا رشتہ تلاش کروں.اس نے جب اپنی باتوں کا تذکرہ بھولے خان عرف بھانڈے خان کو کیا تو اس نے حامی بھی لی .اور ساتھ ہی یہ شرط عائد کی کہ ملک کے اندر اس نئی پارٹی کا مرکزی دفتر کراچی میں نائن زیرو کے ساتھ ہو.یہ مضحک خیز شرط اسے سمجھ نہ آئی .بہر حال اس نے اپنا آفس وہاں بنایا اور کارکنوں کو لڑوایا خود اسلام آباد میں رہائش گاہ بنا کر پناہ حاصل کر لی ..آجکل سنا ہے کہ سانڈے میاں کی مقبولیت کا گراف اتنا بلند ہے کہ انہیں اپنا نام اخبار میں تلاش کرنے کےلیے عینک کا استعمال کرنا پڑتا ہے .اب تو انکانام کا طوطی بولتا ہے صرف وہ ایک طوطی بولتی ہے جو انہوں نے اپنے بڑے غریب جھونپڑے میں پالی ہوئی ہے.سانڈے میاں کی صلاحیتوں سے ہم بھی متاثر ہیں لیکن ہمیں ڈر اس بات کا ہے کہ جو بل اسمبلی سے سائبر کرائم کا پاس ہو ا ہے وہ ہم پر لاگو نہ ہو جائے.اس لیے سانڈے میاں سے خوفزدہ تیل کی قیمتوں سے افسردہ ہو کر ہم نے ایک گدھا پالا ہوا ہے جو سانڈے میاں کو گفٹ کرنا جانا ہے .بس دعا کرو کہ یہ دن جلدی آئے
تبصرہ جات

عامر رانا

بلاگر

میرے بارے میں مزید جاننے کے لیے استخارہ فرمائیں۔ اگر کوئی نئی بات معلوم ہو تو مجھے مطلع کرنے سے قبل اپنے طور پر تصدیق ضرور کر لیں!