جب لیٹرین نہیں ہوتی تھی

از

جب لیٹرین نہیں ہوتی تھی ۔۔؟؟ 



نوٹ : نابالغ اور کچے ذہن ہرگز نہ پڑھیں۔۔


جب دیہات میں لیٹرین کا رواج نہیں تھا رفع حاجت کے لیے کھیتوں کا رخ کرنا پڑتا تھا ۔عورتیں رات کو یا صبح منہ اندھیرے یہ کام کرتیں۔ مرد و خواتین کے علاقے بھی مخصوص تھے۔ ہمیں یعنی بچوں کو بھی باہر جانا پڑتا تھا۔ ان دنوں بھوت پریت اور بردہ فروشی 'عام' تھی اسلئے ہمیں دن دہاڑے اور ٹیم کی شکل میں یہ کار سرانجام دینا پڑتا۔۔

فراغت کے بعد "گھسیٹی" ماری جاتی تھی۔ اس عمل کے دوران کانٹا کنکر چبھ جانا عام بات تھی۔ بارش میں بھی بھیگتے، کانپتے، کیچڑ میں لتھڑے وہیں جانا پڑتا اور کپڑے کی ٹاکیاں بطور ٹشو پیپر استعمال ہوتیں۔ رات کو ایمرجنسی پڑ جاتی تو اکیلے ہی ڈرتے ڈرتے کھیت کو دوڑ لگ جاتی۔ جاتے ہوئے دعا مانگی جاتی کہ "یا اللہ تو ہی ہے جو خیریت(شلوار کی) سے پہنچا سکتا ہے" واپسی پر بھی یہی دعا مانگی جاتی "یا اللہ تو ہی ہے جو خیریت(جنات سے) سے پہنچا سکتا ہے"

مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک لڑکا اس حالت میں پکڑا گیا کہ تربوز کے کھیت میں بیٹھا ' کام' بھی کرتا جا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ بڑا سا تربوز بھی کھا رہا ہے۔

گاؤں کی اکلوتی مسجدکے ساتھ تین استنجاء خانے تھے جہاں صرف 'چھوٹا'  کیا جاسکتا تھا۔کبھی کبھار 'بڑی' واردات بھی ہو جاتی۔ ایک دن ایک بزرگ ظہر کی اذان کے لیے مسجد پہنچے تو دیکھا کہ تینوں استنجاء خانوں میں بڑی واردات ہو چکی ہے اور پانی بھی نہیں ڈالا گیا۔ بابا جی کا قاری حنیف ڈار صاحب والا 'تراہ' نکل گیا۔ بزرگوار نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ سے لاؤڈ اسپیکر آن کیا اور گاؤں کا وہ تاریخ ساز اعلان کھڑکایا جو ابھی تک لفظ بہ لفظ یاد ہے۔ اعلان ٹھیٹ پنجابی میں ہے بمع ترجمہ ملاحظہ فرمائیے۔۔

" اؤے نِریا حرام دیا! تریوے خانے بوڑ گیا ایں؟؟ اؤے کھوتی دیا پُترا!  کِلا ڈَکھّن ٹُر جاویں ہا پَدھ تے کوئی نائیا۔ اؤے خنزیر دیا خنزیرا! ایہہ اللہ دی مسیت اے، اللہ دا گھار اے۔ اؤے خاص حرام دیا! توں مِن لبھ گیئوں نا! تیرے کولوں ای دھواواں دا کُتیا بغیرتا! "

ترجمہ : او خالص حرام زادے! تینوں خانے بھر دیے ہیں؟؟ او گدھی کے بچے! ایکڑ جنوب کی طرف چلا جاتا کوئی سفر تو نہیں تھا۔ خنزیر کی اولاد! یہ الله کی مسجد ہے، اللہ کا گھر ہے۔ حرام زادے! اگر تمہیں ڈھونڈ لیا نا! تجھی سے صفائی کراؤں گا کُتے بےغیرت! 

ان دنوں اناج چھتوں پر پھیلا کر خشک کیا جاتا تھا اس لیے چھت میں سوراخ رکھا جاتا  تاکہ اچانک موسم خراب ہونے کی صورت میں اناج چھت سے براہ راست کمرے میں گرا کر محفوظ کیا جا سکے۔ وہ سوراخ کسی مٹی کے برتن سے ڈھکا رہتا۔۔ 

ایک لڑکے کے پڑوسی گھر کو تالے ڈال کر ڈیرے پر شفٹ ہوئے تو اس کی موج لگ گئی۔ وہ منہ اندھیرے اٹھتا، ہمسایوں کی چھت پر بذریعہ سوراخ اپنا 'کام' کرتا اور چلتا بنتا۔ ایک دن ہمسایوں کی مائی کسی وجہ سے گھر آئی تو کمرے کی حالت دیکھ کر اس کا بھی 'تراہ' نکل گیا۔ ویسے تو کمرے میں بالن ڈنڈوں سوٹوں جیسا کاٹھ کباڑ ہی پڑا تھا لیکن مائی مجرم کو رنگے ہاتھوں پکڑنا چاہتی تھی۔ مائی سیانی تھی اس نے 'مال' کی نوعیت اور تازگی سے واردات کے وقت کا اندازہ لگا لیا اور چپکے سے واپس چلی گئی کہ کہیں مجرم بدک نہ جائے۔ 

اگلے دن لڑکا مقررہ وقت پر ہمسایوں کی چھت پر پہنچا۔ مٹی کا برتن اٹھا کر سائیڈ پر کیا۔ جب سوراخ پر براجمان ہو کر نشانہ باندھ رہا تھا، عین اسی وقت مائی بھی نیچے سے لمبا سا بانس پکڑے 'سوراخ' کا نشانہ لے رہی تھی۔ 

....اس کے آگے تاریخ کے پنے غائب ہیں
تبصرہ جات

عامر رانا

بلاگر

میرے بارے میں مزید جاننے کے لیے استخارہ فرمائیں۔ اگر کوئی نئی بات معلوم ہو تو مجھے مطلع کرنے سے قبل اپنے طور پر تصدیق ضرور کر لیں!